Wo tees din. History. Urdu zaban me

Wo tees din. History. Urdu zaban me


پیش لفظ میرا پہلا ناول آپ کی خدمت میں پیش ہے۔


امید یہی ہے اس کو پسند آۓ گی۔اور اگر پسند ند آئے تو یہ خیال کر تے ، درگزرکر دیجئے گا کہ پہلی کوشش تھی ۔ 




بطور آغاز کہتا چلوں ، صرف چند صفحات پڑھ کر کوئی راۓ قائم کرنے سے گریز کرتے ہوۓ ، شروع سے آخر تک پڑھ کر ہی ناول کے اچھے یا برے ہونے پر تبصرہ کیجئے گار سے بڑھ کر تو یہ کہ اس پیش لفظ کا مطالعہ ہی خوب غور وفکر کیساتھ کیجئے گا ۔ 


مجھے اس سے ذرا غرض نہیں ، ناول آپ پسند فرماتے ہیں یا نہیں ؟ 


مجھے غرض ہے تو صرف اس کے اندر بیان کئے گئے حقائق سے ۔ 


مجھے غرض ہے تو صرف یہ کہ اس کاوش کے ذریعے خودکواعلی اور مسلمانوں کوادنی سمجھنے والوں کی اصلیت بیان کرنا ۔ 



بہرحال ، زیر نظر ناول میں اب سے کچھ سال پہلے کا ذکر کیا گیا ہے ، کیونکہ اسے لکھنے کا خیال اسی دور بینی 2008 / 9 ء میں آیا تھا ۔ 



کہ چونکہ یہ موضوع شروع وقت سے میری خاص دلچسپی کا مرکز بنا رہا ہے لہذا مجھے بھی اس پر طبع آزمائی کرنی چاہئے ۔ 



لیکن کافی عرصے تک ایک سطر بھی نہ لکھ سکا ۔ بلا آخر عرصہ چار پانچ سال گزراء 2013 ء میں اسے لکھ ہی ڈالا ۔ وہ تمھیں دن 




ابھی بیان کیا گیا ہے ، مذکورہ ناول کے اندر کچھ سال پہلے کا ذکر آیا ہے ، اور انہی میں ایک سال کے کچھ دن ، تاریخیں کہانی کی ضرورت کے مطابق نہ تھے ۔ 


نتیجتا ، مجھے انھیں فرضی دن اور تاریخوں کی صورت بدلنا پڑا ۔ بہرحال ، موضوع کا اندازہ آپ نے سرورق دیکھ کر ہی کر لیا ہوگا ۔ 


اور اسی حوالے سے ، زیر مطالعہ ناول کے ذریعے اپنے فکر وافکار قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ 


یہ ناول دراصل گزشتہ اور موجودہ برسوں کے دورانیہ ، رونماء ہونے والے حالات و واقعات کے تناظر میں میرے اخذ کردہ خیالات نتائج اور چند ایسے چشم کشا حقائق ، جنہیں بلاشبہ اشد غورطلبی کی ضرورت ہے ، کا مجموعہ ہے۔


اپنے اخذ شدہ نتائج اور خیالات کی بابت آپ کے حوالے سے کچھ کہنا پڑے تو ممکن ہے آپ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ، یہاں بیان کئے گئے خیالات سے متفق اور کسی نہ کسی حد تک واقف رہے ہوں ۔ 


اور یقینا ہوں گے بھی ، کیونکہ اب کون ہے جو دہشت گردی کے پاکستان کے خلاف بیرونی سازشوں کے سلسلے میں نہ واقفیت رکھتا ہو ؟  


یہاں بھی یقینی طور سے کہہ سکنے کا مجاز ہوں ، ناول میں بیان کئے گئے چندایسے نقاط جو دراصل حقائق سے قریب تر ہی ہیں ، آپ قارئین کی ایک بڑی تعداد کے علم میں نہیں ہوں گے ... 


مطلب یہ کہ ایسے حقائق نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی آپ ان سے قطعی ناواقف ہوں گے ۔ یہ بھی آپ کا دھیان ان کی طرف گیا ہوگا یا آپ نے بذات خود انہیں کوئی اہمیت ہی دینی چاہی ہوگی ! 


مگر جب انہیں پڑھ کر آپ گزشتہ وموجودہ حالات و واقعات سے ان کا موازنہ کریں گے ا کے متعلق غور وفکر کرنا چاہیں گے ، اسکے تانے بانے ایک دوسرے سے ملانے کی کوشش کر یں گے ۔ 


جب آپ بھی یہ کہہ اٹھے گے۔ارے ہاں مسلمانوں کے ساتھ یہی تو ہوتا رہا ہے ... 


یہی گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے ان کے ساتھ ۔اگر آپ ابھی بھی نہیں سمجھ سکے تو ناول پڑھ کر کچھ نہ کچھ حد تک ضرور مجھ جائیں ۔ 


حرف آخر میں کہتا چلوں ، اس ناول کو لکھنے کا میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا یا اس پر کیچڑ اچھالنا قطعی نہیں ، بلکہ تلخ حقیقت سامنے لاتا ہے ، اس کے باوجود کسی کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے یا کوئی اس سے متفق نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں معذرت چاہوں گا ۔ ناول آپ کو کیسالگا ، اس کے بارے میں آ پکی آراء کا انتظار ہےگا ۔ 


و میں دن 36 



و میں دن فرخ انور چوہان کسی دانشمند نے کبھی کہا تھا یاد میں دھندلا ضرور جاتی ہیں ختم نہیں ہوا کرتیں ۔


شاید ٹھیک ہی کہا اس نے ، کیونکہ جب کبھی میرا ویسٹ سائڈ اسٹریٹ سے گزر ہوتا بھی اس خونی دن کے اندر رونما ہونے والے واقعات ، ، جو وقت گزرتے گزرتے ، قدرے دھندلا جایا کرتے ۔ 



وہ مقام دیکھ کسی فلم کی مانند دوبارہ ذہن میں چلنے لگتے ۔ 


اور غالبا ہی ایک لمحے کے اندراندر تصورات کی اس دنیا میں داخل ہو ، ماضی میں گزرے ہزاروں لاکھوں لمحات کیے جا پہنچتا ۔ 


اور اس میں کچھ نیا انوکھا پن یا کوئی اچنچا تھا ۔ نہ ان واقعات کا ذہن میں فلم کی مانند چل پڑنا اب کوئی تعجب ہی رہا تھا ۔ 


کیونکہ اس فہرست میں صرف مجھا کیلے کا نام شامل نہیں ، جو اس کے متعلق سوچتا ہوں گا ۔ 


بلکہ ادھر سے تو گزر تے تقریبا ہر انسان کے ذہن میں چاہے لھہ بھر کیوں نہ ہی مگر اس واقعہ کی یادضرور تازہ ہو جاتی ہوگی ۔ 


اور شاید تب تک انہیں یاد آتی رہے گی جب تک دنیا سے رخصت نہیں ہو جاتے ، اور یقیناً انہی کے ذریعے سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک بھی پہنچتی رہے گی ۔ 


وہ انھیں بتاتے رہیں گے یہ واقعہ آنکھوں کے سامنے رونماء ہوا تھا ان کی ... 


وہ انھیں بتائیں گے یہ تباہی ہوئی آنکھوں سے دیکھی تھی انہوں نے ۔ 


وہ بیان کے علم میں لاتے رہیں گے ، چاہے جس شکل میں سہی ، مگر وہ بھی کسی نہ کسی حد تک اس واقعہ سے جڑے رہے تو ضرور تھے۔ان کا تعلق اس کے ساتھ کم یا زیادہ خواہ کسی بھی پیانے کی امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ... 


قریب یا دور ، خواہ کسی بھی فاصلے پر کھڑے ، اس تباہی کا تماشہ دیکھنے میں مصروف رہتے ، کچھ نہ کچھ حد تک تو ضرور رہا تھا ۔ 


ہے میرا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا تھا ۔ 


کیونکہ ذہن میں ہر روز زیادہ نہیں ، کم از کم دو دفعہ اس دھندلے واقعہ کی یا ایک بار پھرا بھر کر نمایاں ہو چلتیں ۔ 


دن میں دو مرتبہ لازمی میرا گز رمغربی سڑک ( ویسٹ سائڈ اسٹریٹ ) کی طرف سے جو ہوا کرتا تھا ۔ 


پہلا ، دوسفید فام دوستوں پر بیٹ کنگ اور اطالوی نژادفر نیکومور پٹی کے سینے آتے اور و تیں دن.



دوسرا ادھر سے رخصت لیتے وقت ۔ 


ہم تینوں دوست مزید دو ملازمین سم اور متھن سمیت ہمارے گمان کے مطابق ، دوئم درجے کا حامل یہ چھوٹا سا کینے ، جو پہلے کیفے کنگ ‘ ‘ کہلایا کرتا تھا ۔ 


مل کر چلاتے ، اور ہر ہفتے حاصل ہوئی آمدنی میں سے ایک مخصوص شرح کے تناسب سے ہفتہ وار اجرت کی شکل ، پر بیٹ اسے ہمیں ادا کر دیا کرتا۔اب ہمارا یہ کیفے کنگز کیفے لیے ‘ ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ 


مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے والی دیوار ، جس پر یہ بڑی کی عبارت پر سب سے پہلے نظر پڑا کرتی تھی ۔ 


لوگ پڑھ کر بھی لحہ بھر حیرت زدہ رہ جاتے ، بھی بننے لگتے ۔



اورکولوں ان کیفیات میں مبتلا کرتی وہ عبارت در حقیقت ان کنگز کیفے لینے میں خوش آمدید ! گھبرائے نہیں ! ... 



ہماری ڈکشنری میں اوٹ پٹانگ ۔ بعدہ ، لذیز اور ذائقہ دار کے ہیں ‘ ‘ ۔ 


دراصل نام تبد یل کر نے کا فیصلہ کر لینے کا لفظ اس بناء پر شامل کر ایسے ہی بنا دیے گئے کہ اسے کیے لیے کتنا کچھ ملا بھی نہ تھا ٹوٹی پھوٹی خستہ حال اور بیک گلی ، نیز ایک غلط ، دوسرے سے مختلف رنگ و قسم کی لکڑیوں سے تیار شدہ میزیں ، کرسیاں ۔ 


ایک کونے سے اکھڑا ، چوبی کاؤنٹر ۔ 


دیواروں پر جگہ جگہ نامور شخصیات اورفن پاروں کے تصاویری خاسے بھی گئے تھے ۔ 


لیکن ہر ایک خاکہ پٹا پرانا پڑا مڑا سا تھا کسی پر جگہ جگہ سلوٹیں ابھری ہوتیں ، کوئی کناروں سے پھٹا ہوتا کسی پر بنے مشہور بچارے شخص کی پوری شکل مونچھیں اور آنکھوں پر عینک بنا کر بگاڑ دی گئی تھی کسی پر بھاری مونا لیزا کوئی مشروب پیتی نظر آرہی تھی ۔ 


ایک خاکے میں وٹلر کی ماں کوئی کتاب پڑھنے میں مگن نظر آرہی تھی۔اسکر یر غریب بھی نہ بخشا گیا ، اس پر جونقش و نگاری کر دی گئی ؟، اسے ایک جوکر بنا کر پیش کر رہی تھی ۔ 


جسے دیکھ ، لوگ از راۓ مذاق پیتے اور اسی کی مانند عجیب کیفیت کا اظہارکم بلکہ ہنساز یادہ کرتے تھے ۔ 


دیواروں کے وہ حصے جو خاکوں سے محروم رہے ، ان پر چسپاں وال پیپر کا جگہ جگہ سے اکھڑا اور پھٹا ہوا ہونا۔انہی دیواروں پر جگہ جگہ چند ایک اوٹ پٹانگ تصویروں سے مزین پرانے اور ٹوٹے پھوٹے چوبی فریم و تیس دن 56.



بھی زینت بنے ہوئے تھے ۔ کسی کا ایک کونہ غائب ہوتا کسی کا دوسرا کسی کو ٹیپ کی مدد سے جوڑا ہوا تھا ۔ 


بعض کو کیلیں ٹھونک کر جوڑا گیا تھا ، اور یہی کیلیں ان کے اندر پوری پیوست کرنے کے بجاۓ آدی پوست کر ، بقیہ باہری حصہ مختلف سمتوں میں موڑ دیا گیا تھا ۔ 


دیوار سے چپکی چھوٹی الماری پر رکھی الٹی پلٹی ہوئی ٹرافیاں اور یہاں وہاں بکھرے پڑے ، رکھے ، چسپاں ، طلائی چاندی اور کانسی کے تمغے بھی ہر کسی کا دھیان بھینچ لیا کرتے ۔ 


کھڑکیوں کا ذکر کیا جاۓ تو تقریبا ہر کھڑکی کا کوئی نہ کوئی شیشہ چٹھا یا تھوڑا سا ٹوٹا ہوا ضرور تھا ۔ 


صرف یہی نہیں ، ان میں ہر ایک شیشہ دوسرے کے مقابلے مختلف نقش ونگار اور رنگ کا تھا ۔ 


رنگ برنگے اور عمدہ بناوٹ کے حامل ، مگر ٹوٹے ، زنگ لگے میز پر رکھے اور دیوار پر لگائے جانے والے لیمپ ، جن سے انہی کے جسمانی رنگ کی پھولتی روشنی بہت خوبصورت لگتی ۔


رہ گئی کھانوں کی فہرست بمعہ نرخ نامہ ۔ 


اسے کیونکر معافی مل سکتی تھی ؟ ۔


اسے جس طرح نشانہ بنایا گیا ، وہ گتے کے چند تڑے مڑے ٹکڑوں پر براجہ ہاتھ کی لکھائی ، دستیاب اشیاؤں کے نام اور قیتیں درج کر کے کتابی شکل میں موڑتے ہوۓ پہلے صفحہ پر مینو کارڈ کی پر چی چسپاں کر دینار ہا تھا ۔ 


الغرض یہ کہنے واقعی ، کیفے ملے کہلانے کے لائق تھا ۔ تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں ، اندر داخل ہونے والا ہرگا ہک فقہ ذرا ہی دیر کیفے کی بیستیاناسی حالت دیکھتے حیران رہ پاتا تھا ۔ 


کیونکہ اس کے بریکس حسن انتظام ، صفائی ستھرائی خوب صورت چم چماتے برتن ۔ 


کیفے ، ہی کا نام کیسے خصوصی طور پر تیار کروائے گئے مگے ، پیالیاں ، پیچھے پلٹیں ، دیگر ظروف وغیرہ اور دوسرا سامان نفاست سلیقے اور حسن ترتیب سے آراستہ دیکھے اس وقت ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگ جاتا ، کنگز کیفے ٹیلے کی سیختہ بستیاناسی حالت جسے اندرونی سجاوٹ یا توڑ پھوڑ ، جو بھی نام دیا جاۓ ، جانتے بوجھتے کی گئی ہے تا کہ کسی بھی جگہ کی اندرونی سجاوٹ کا ایک نیا انداز متعارف ہونے کے ساتھ ساتھ لینے کا لفظ اسے بھر پورچ بھی سکے ۔ 



اور ایسا کرنا واقعی ہمارے لئے بہتر ثابت ہوا تھا ۔ 


کیونکہ ادھر کا رخ کرتا ہر نیا گا یک بہ منظر داور نئی طرز سجاوٹ دیکھ ، دنگ رہ جا تا اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں پر داد دیے بغیر نہ رہ پاتا تھا ۔ 


بہرحال ، میا نداز ہمارے لئے ضرور منفرد اور کئی طرز کا رہا ہو ، نیو یارک اور اس کے باسیوں کیلئے اب منفرد اور نئی طرز کا بالکل نہیں رہ گیا تھا ۔ 


کیونکہ کنگز کیفے ٹینے کا مینرالا انداز بہت قلیل عرصہ میں ہی خاصی مقبولیت حاصل کر چکا تھا ۔ جس کا اندازہ اس د میں دن 



سے لگایا جا سکتا تھا ، نیویارک میں قائم دیگر کئی دوسرے جانے مانے کیفے ، کافی و چاۓ خانوں اور ریستوران وغیرہ کی اندرونی سجاوٹ کیلئے ان کے کرتا دھرتا ، ہمارے کنگز کیفے ٹیلے کے اس منفردانداز کی نقالی کر بیٹھے تھے ۔ جن کا مشاہدہ ہم تینوں دوست نہ صرف بذات خود کرتے رہے تھے بلکہ سینے کے اکثر مستقل صارفین اس نوعیت کی خبروں سے وقتا فو ق آگاہ کرتے رہتے تھے ۔ 



اوپرڈ کر ہو رہا تھا واقعات کا تو واقعات اور انسانی الیے اگر چہ پہلے بھی خاصے بڑے بڑے ، نامی گرامی ، خونریزی سے بھر پور ، دنیا میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں ۔ 


چند دنوں کے اندر اندر جاپان جیسے ملک کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاسا کی پرایٹم بم گرانا جو دنوں نہیں گھنٹوں نہیں منٹوں کے اندر اندر لاکھوں اموات کا سب بناء بلاشبہ کوئی چھوٹا یا معمولی واقعہ نہ تھا ۔ 



اسی طرح پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں ۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور نجانے کتنے واقعات اس دنیا میں رونما ہوکر ایک تاریخ رقم کر گئے ۔


علاوہ ازمیں ، دنیا میں پیش آنیوالے بدترین حالات واقعات کے متعلق اگر تاریخی مواد اور حوالہ جات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم پڑتا ہے ، 


مذکورہ فہرست میں غالبا پہلے نمبر پر شامل پندرہویں صدی کے آخر سے سترہویں صدی کے آواخر تک جاری رہنے والا اور بین عوام کی براعظم امریکہ ، آبادکاری کے نتیجے میں ہوئی جنگ اورنسل کشی کے واقعات ، جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا سات سے دس کروڑ کے درمیان انسان لقمہ اجل بن گئے تھے ۔


وہ بھی دنیا پر اتنے گہرے نقوش نہ چھوڑ سکا تھایا اثر انداز ہو پایا تھا ۔ مگر اس ایک واقعے نے تو سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ شاید اس سے قبل ہوا کوئی واقعہ دنیا کو اتنا نہ بدل سکا تھا ۔ 


جتنا دنیا کے بدلاؤ میں انتہائی برق رفتاری کا سبب صرف میڈ یڑھ سے دو گھنٹے پر محیط واقعہ بنا تھا ۔ 


ہر دفعہ کی طرح آج بھی یہی ہوا ۔ 


ایڈریھم نامی ، آسمان کی بلندیاں چھوٹی عمارت سے برآمد ہو کر سامنے کھڑی جس ٹیکسی میں سوار ہوا تھا مختلف راستوں سے ہوئی ، ویسٹ سائڈ اسٹریٹ پر فراٹے بھرنے گئی تو حسب معمول وہی پرانی فلم ذہن میں چلنا شروع ہوگئی اور قول دانشمند کے عین مطابق یادوں کے دور دراز گوشوں ، خانوں میں بسے اس واقعہ کے دھندلے ہوتے مناظر ایک کے بعد ایک واضح ہوتے چلے گئے اور و میں دن * 7 * 




مسکراتا ، ادھ کھلے شیشے پر ٹھوڑی جماۓ اس مقام کو تب تک دیکھتا رہا ، جب تک نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا ۔ تب یہی لگنے لگا جیسے کل ہی کا قصہ ہو ۔ 



اس دن اتفاق سے میری بیسویں سالگرہ بھی تو تھی اور یہی دن تھا جب سورج کے طلوع ہونے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ، بس اب سے چند گھنٹوں میں دنیا کی تاریخ ایک نیا موڑ لینے والی ہے ۔


اور دنیا کی تاریخ کے ایک بھیا تک دور کی شروعات بس ہوئی ہی چاہتی ہے ۔ ایک ایسا دور جوسب کچھ تہہ وبالا کر کے رکھ دے گا۔


ایک ایسا گڑ ا دور جو حق کو بڑی صفائی سے ناحق اور ناحق کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ حق بنا کر پیش کرے گا اورلوگوں کی گمراہی کا سبب بن جاۓ گا۔


انسان کو انسان نہیں جانور سے بھی بدتر ظاہر کرے گا ۔ ظلمت کی ایک تاریخ رقم کر کے ، روشنی کی جگہ تاریکی کو دینا شروع کر دے گا ۔ 


یہی وہ دور ہوگا جوآخری وقتوں کا ، بلاشبہ گمان دے گا ۔ گیارہ ستمبر ... ہاں ، گیارہ ستمبر 2001 ء ... وت وقت سے تا حال پھیلی تباہی ... خو . . . جنگی جنون اور نجانے کس کس منفی فعل کی بنیا درکھ دی تھی ۔ 


یہی وہ خونی دن تھا ، جس کی بالکل عین شروع یں سامنے آنیوالے ایک واقعہ کے اندر تقریبا تین ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور انہی تین ہزار کے لقمہ اجل ۔ 


ے نتیجے میں مزید لاکھوں ، خصوصاً سب بھی مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اور ابھی بھی بیدردی کے ساتھ ان کامل عام ، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں بڑے زوروشور سے جاری تھا ۔ 


ہیں اور ان کی بھرترین عمارتوں میں شمار کی جانے والی ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جڑواں عمارتوں پر حملہ کر انہیں صرف ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا تھا ۔ 


سو سے بھی کچھ زیادہ منزلوں پرمشتمل دو فلک بوس عمارتیں جنہیں علیحدہ علیحدہ طور پر تعمیر کرنے میں ، دو پہر کی کڑکڑاتی دھوپ ہو یا رات کا اندھیرا سخت ترین گرمی ہو یا سخت ترین سردی میں کا عالم ہو یا چل رہے ہوں تیز ہواؤں کے جھکڑ کے جھکڑ ۔ 


نیز ہر طرح کے موسم کی کی جھیلنے کے علاوہ انتہائی بلندی پر جان ہتھیلی پر رکھ ، کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کی کڑی محنت اور تقریبا دس دس ہزار کے حساب سے کم و بیش میں ہزار گھنٹے گئے ہوں گے ۔ انہیں تباہ و برباد ہونے میں مکمل دو گھنٹے بھی نہ لگے اور آن کی آن میں زمین بوس ہو دہ میں din



تی چلی گئیں ۔ اس روز میری طبیعت تھوڑی خراب تھی اس لئے کالج کی چھٹی کر نے کا فیصلہ کیا ۔ 


صیح معمول کے وقت پر بیدار ہو کر نیچے تشریف لے گیا اور چھٹی کرنے کا اعلان فرمادیا ۔ 


        • تو ای نے بھی برستا ہی تھا پھر مجھ پر ۔ 


        • روز روز کالج کی چھٹی کرتا رہتا ہے ۔ 


        • پڑھائی میں دیدہ نہیں لگاتا ۔


       •  تمہارے والد کو پتا چلا تو خیر نہیں۔


       • اور نجانے کیا کیا انہوں نے کہا تھا ۔ 


       • مگر جب میں نے چھٹی کا سبب بتایا تو لاڈ پیار     کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی بن چلیں ۔ 


       • ناشتہ کر کے یہ دوائی پی لیتا ، وہ والی گولی کھالینا ... 


        • ہو سکے تو سینے کی چھٹی کر کے تھوڑا آرام کر لینا ۔


        • اور نجانے کیا کیا تجویز ویڈ بیر کر چکی تھیں ۔ 


بڑی بہن بینش نے پہلے سالگرہ کی مبارک باد دی ، اس کے بعد حسب معمول چھیٹر تے ہوئے امی سے شکایت کرنے لگیں ، یہ جناب روز چھٹی کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیا کرتے ہیں۔


اور آپ ان بہانے بازیوں میں آ کر چھٹی کروا بھی دیتی ہیں۔بطور جواب ، حسب عادت انھیں منہ چڑاتا اور خاموش بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتا رہا تھا ۔ 


ناشتہ کر کے ، امی نے زبردستی چند کڑوی دوایاں مجھے کھلا پلا دیں ۔ جنہیں کھاتے پیتے عجیب عجیب شکلیں بنائیں اور یہ کہہ کر باہر نکل کھڑا ہوا


کیئے جا رہا ہوں ۔ 



پہلے انہوں نے مجھے روکنا چاہا اور آرام کا مشورہ دیا ۔ 



لیکن ضد کی تو مان گئیں اور طبیعت خرابی کے باعث بذریہ بس یا ٹیکسی جانے کا کہا۔


انھیں علم تھا میں کیفے زیادہ تر پیدل ہی جاتا ہوں لیکن طبیعت سنجل ا جانے کا کہتا ، میں پیدل پیدل ہی چل پڑا ۔ 


چونکہ آج بیسویں سالگرہ تھی اس لئے راستہ بھر سوچتارہا ، کالج چلے جانا چاہئے تھا ۔ 



تا کہ یار دوست سالگرہ کی مبارک باد دیتے ۔ 



جبکہ دماغ میں آرہا تھا طبیعت خراب ہے لہذا چھٹی کر لینا ہی مناسب تھا ۔ مبارک باد کا کیا ہے ... 


بر بیٹ اور فریکو آج دے دیں گے۔رہے کالج کے دوست ! 



تو کل کون کی دور ہے ؟ ، وہ کل دے دیں گے سالگرہ کی مبارک باد ۔ دل کہنے لگا لیکن آج کی جو اہمیت ہوتی مبارک باد وصول کرنے کی وہ کل شد ہوگی ۔ 


دماغ کب میلا بیٹھنے والا تھا ، فورا خیال ظاہر کیا ، جو بھی ہے ! اب کچھ نہیں ہوسکتا ... 



اب چھٹی ہوگئی ، سو ہوگئی ۔ بعدازاں دل اور دماغ کی تکرار ختم کرنے کیلئے مسکراتے ہوۓ میں بڑ بڑایا ۔ 


        • خیر جو بھی ہو ... دیکھا جائے گا ۔ 

        • بلاشبہ بیتکرار د ماغ جیت گیا تھا ۔ 



لیکن شاید کسی نے درست کہا ہے دل اور دماغ کی تکرار ہونے پر ہمیشہ دل کی سنٹنی چاہئے ، دماغ کی نہیں ۔ قریبا نصف گھنٹہ پیدل چلتے ، آخر کار کنگز کیفے لینے پہنچ گیا ۔ 



اس دوران دوائی اور تازہ تازہ ہوائے بھی خوب دہ تھیں دن ه 9 * 



اثر دیکھا یا اورطبیعت بحالی کی طرف گامزن ہوتی چلی گئی تھی ۔ یعنی اب خودکو خاصی حد تک بہتر محسوس کر رہا تھا ۔ 


یہ کیفے بریٹ کی ملکیت تھا جو والد ڈیز منڈ کنگ نے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ لاڈلہ ہونے کے ناطے اس کے نام کر رکھا تھا ۔ 


مذکورہ کنگ فیلی میں سات افراد تھے ۔ 


پر پٹ ، اس کے دادا ، امی ابو ، بڑا بھائی اور دو میٹیں ۔ دادی کا تین سال گزرے ، انتقال ہو چکا تھا ۔ 


یہ کنگ فیلی چیلسی کے علاقے میں ایک خوبصورت سے اپارٹمنٹ میں رہائش پڑی تھی ۔ 


بریٹ پڑھائی میں اتنا تیز نہ تھا ۔ یہی وجہ تھی جلد اسے خیر باد کہہ کر سینے خود سنجالئے ، نیز نام اور اس نام کی مناسبت سے حلیہ بھی بدل کر رکھ دیا تھا ۔ 


اور جو کافی وہ بتا تا ، اس کے تو کیا ہی کہنے کافی کی ہر ایک پیالی میں دودھ ، قدرے گاڑھا کر کے ، انتہائی مہارت سے طرح طرح کے خوبصورت نقش و نگار بنادیا کرتا تھا ۔ 


ان حضرت نے اس مخصوص کافی کو جادوئی کافی “ کا نام دیا ہوا تھا ۔ 


اور واقعی ، اس کافی میں کافی جادو تھا ۔ 


کیونکہ ہر کا ایک انتہائی ذائقہ دار ہونے کے سبب کم از کم دو پیالیاں لازما پیا کرتا۔علاوہ ازیں بعض اوقات وہ علاقائی یا شہری سطح پر منعقد ہونے والے عمدہ کافی بنانے کے مقابلوں میں حصہ بھی لیتارہتا تھا ۔ 


چند ایک وہ جیت بھی چکا تھا ۔ اور انہی مقابلوں میں فتح یا دوسرا تیسرانمبر حاصل کرنے پر وصول ہوئی ٹرافیاں اور سونے ، چاندی و کانسی کے تمغے کیفے میں ایک الماری پر الٹی پلٹی کے سے اور مختلف انداز میں سجاۓ ہوۓ تھے ۔ 


ان تھے ، ٹرافیوں سے ایک دلچسپ رودا منسوب ہے ۔ 


جب تک کینے کا نام کیفے کنگ تھا اور بریٹ بحیثیت ے پیرا اور کافی تیار کر نے والا ، والد اور بھائی کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا ۔ 


تب تک میں تھمنے وٹرافیاں ( جن کی تعداد پہلے کم تھی ) الماری کے اندرسیدھے سیدھے ہی رکھے گئے تھے ۔ 


بعدازاں والد اور بھائی کے کسی دوسرے کاروبار کے اندر قسمت آزمائی کرنے کے سبب ، یہ کینے پر بیٹ کی زیرنگرانی آیا اور مقابلوں میں کامیابی کی صورت ، وصول ہوتی ٹرافیوں اور تمغوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ؟ ۔ 


معمولی عرصہ گزرا ، اس نے کیفے کا حلیہ اور نام تبدیل کرنے ، علاوہ ازیں اس نئے حلیے کی مناسبت سے یہ تمغے ٹرافیاں الماری کے اندرالٹ پلٹ اور لٹا کر رکھ دیں ۔ 


یعنی اب کسی کا چنیدہ ٹرافی کا اوپری حصہ معلوم ہورہا تھا یا کسی کو دیوار سے ٹیک لگا کر ٹیڑھا کر کے کھڑارہنے دیا گیا تھا ۔ کوئی ٹرافی ، الماری کی چوبی زمین پر لیٹی آرام فرمارہی ہوتی ۔ 


جبکہ تین چار تمغے الماری کی دیواروں اور ٹرافیوں پر چسپاں کر دیے گئے تھے ، دوایک ، ٹرافیوں ہی کی طرح زمین پر رکھ دیئے گئے تھے ، اور کسی بنیاد کی مدد وہ تمھیں دن * 10


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.